امراء اور بادشا ہوں سے تعلقات
عام خیال یہ ہے کہ فقیر اور صوفی کو امراء اوربادشاہوں سے نہ ملنا چاہیے؛ لیکن حضرت غوث العالم ایک فقیراور صوفی کا بادشاہوں او ر امیروں سے ملنا ضروری سمجھتے تھے؛ اس لئے کہ فقیروں اور صوفیوں کا بادشاہوں سے نہ ملنا انھیں اپنے سے کمتر سمجھناہے اوراس سے غرور و جہالت اور خودستائی کی بٗو آتی ہے۔ اور یہ عمل ابلیس ہے، اور نفس امارہ کا دھوکا ہے۔ پھر بالفرض اگر انھیں کمتر ہی سمجھا جائے تو نیکو کاروں کی نیکیاں بدکاروں کے نامۂ اعمال میں نہیں لکھی جاتیں اور نہ بد کاروں کے گناہ نیکوں کاروں کے نامۂ اعمال میں درج کیے جاتے ہیں۔ بادشاہوں اور امیروں کے درجہ کا گھٹاؤ اور ان کے عبادت کی کمی کامل صوفیوں کو کوئی نقصان نہیں پہونچا سکتی۔
آپ فرماتے تھے کہ بادشایا عادل ہو گایا ظالم، اگر بادشاہ عادل و عابد ہے تو اس سے ملنا باعث برکت اورموجب سعادت ہے۔ اس لیے کہ احادیث کریمہ میں آیا ہے کہ عادل بادشاہ سے ملاقات کے وقت خدا کی رحمتوں کی بارش ہوتی ہے، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب بندوں سے افضل عادل بادشاہ ہوگا۔
حضرت علی کرم الله وجہہ الکریم نے فرمایاکہ ایک ساعت کا عدل ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔
اور اگر بادشاہ ظالم وفاسق ہے تو اس سے ملنا اور اس کی ہدایت کرنا علماء وصو فیا پر فرض ہے۔
حضرت نے فرمایاکہ فقراء بھی دو طرح کے ہوتے ہیں:۔
(۱) شرعی (۲)اورطریقی۔
فقراء شرعی کے پاس مال و دولت نہیں ہوتی، ایسے فقراء اگر بادشاہوں اورامیروں سے ملاقات کر کے زکوٰۃ وصدقات جوفقراء اور مساکین کا حق ہے ان سے حاصل کریں اور اپنے بال بچوں کی پرورش کریں اور بے فکرہوکر نماز و روزہ میں مشغول ہوں توان کو بادشاہوں اور امیروں سے ملنا جائز اورمباح ہے۔
فقراء طریقی بھی دو قسم کے ہوتے ہیں:۔
(۱) کامل(۲)ا ور مکمل۔
فقیر کامل: وہ فقیر ہے جو دائرۂ وحدت سے باہر نہیں نکل سکتا، جو اس مرتبہ پر فائز ہو اس کے لیے بادشاہ اور امیرکا کیا ذکر ہے؟ اپنے احباب واصحاب سے ملنا بھی مضر ہے، ایسے فقیروں کے لیے بس خلوت اورگوشہ نشینی ہی بہتر ہے۔
فقیر مکمل: وہ فقیر ہے جو عالم کثرت میں بشر کی شکل میں دکھائی دیتاہے،لیکن وہ بحر وحدت کا تیراک ہوتا ہے، فقیر مکمل عارف کامل ہے، اس کی نظر میں سارے موجودات اسمائے الٰہی کا آئینہ اور صفات باری کامظہر ہیں، وہ بادشاہ ہویا فقیرسب کواسی نظر سے دیکھتا ہے۔
حضرت نے فرمایا کہ بعض لوگ حضرت مولائے کائنات کایہ قول بھی دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ ”امیر کے دروازے پرفقیر برا ہے اور فقیر کے دروازے پر امیر اچھا ہے“ لیکن یہ نہیں سوچتے کہ امیر کے دروازے پر اگر فقیر دولت دنیاوی اور خواہشات نفسانی کے حصول کے لیے جاتا ہے تو وہ فقیر ہی نہیں ہے، اس لیے کہ فقیر کی پہلی منزل توکل اور ترک ہوا وہوس ہے، ایسے فقیر پر امیر نے توجہ کیا تو امیر کی سعادت ہے، فقیر برا ہے،ا میراچھا ہے۔ لیکن دوسروں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جانا یا بادشاہ و امیر کی ہدایت کے لیے جانا اور بات ہے۔
حضورﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ:
”اگرکسی ذمی کو ابوجہل کے دروازے پرکوئی حاجت ہو اور وہ میرے پاس سفارش کے لیے آئے تومیں ننگے پاؤں جاؤں گا تاکہ اس ذمی کی ضرورت پوری ہو“
شیخ علاء الدین سمنانی فرماتے تھے کہ ”پروردگار عالم نے اس زمین کو حکمت اورمصلحت سے پیدا فرمایا ہے، اور خدا اس کو آباد ومعمور اور اس سے مخلوق کا فائدہ چاہتا ہے، تو اگر مخلوق دنیا کی عمارت فائدے کے لیے کرے اوراس میں فضول خرچی کا دخل نہ ہو تو یہ آخرت کے لیے بھی فائدہ مند ہے، زمین کو بےکار چھوڑنا گناہ ہے۔ مثال کے طور پراگر کسی کے پاس اتنی زمین ہے کہ ہر سال ہزار من غلّہ پیدا کر سکتا ہے مگراپنی غفلت اور لاپرواہی کی وجہ سے صرف نو سومن غلّہ پیداکیا توسومن غلّہ کی کمی کے بارے میں اس کو جواب دینا پڑے گا، توجو شخص دنیا کی تعمیروترقی میں حصہ نہ لے اور کاہلی سے اس کانام زہد وعبادت رکھے تو وہ شیطان کا تابع ہے۔
حضرت غوت العالم نے فرمایاکہ ”اب ذرا چشمِ بصیرت سے دیکھو بادشاہ، امراء، مخلوق خدا، اہل صنعت و حرفت سب کے سب حقیقت میں عبادت وسلوک کی منزل طے کر رہے ہیں۔ گویا یہ دنیا جو دائرۂ عمل ہے ایک خانقاہ ہے۔ جس کاشیخ خدا ہے اور انبیائے کرام شیخ کے خلیفہ ہیں، اور اولیاء خلفاء کے نائب ہیں اور بادشاہ وامراء اولیاء کے خادم ہیں تاکہ خانقاہ کے لیے ضروریات کے سامان اکٹھاکریں، کسان اورلوگ اس جماعت کے کارکن ہیں۔ اہل صنعت لباس اوراہل حرفت اجناس وغیرہ مہیاکر نے پر متعین ہیں۔
الغرض کوئی جماعت ایسی نہیں ہے جس کے کام کا فائدہ خانقاہ والوں کونہ پہونچتا ہو۔ حد یہ ہے کہ کافروں اور مشرکوں سے بھی دو فائدے حاصل ہوتے ہیں جو اور کسی دوسرے سے نہیں حاصل ہو سکتے، کافر میں دو صفت ایسی ہے جو کسی نبی اور ولی میں بھی نہیں پائی جاتی۔
۱۔ کافر کا قتل کرنے والاغازی ہوتا ہے۔
۲۔ اورجس مؤمن کوکافرنے قتل کر دیا ہو تو وہ شہید ہو تا ہے۔
تو اگر کافر و مشرک نہ ہوتے تو غازی شہید کامرتبہ کیسے حاصل ہوتا؟ یہی وجہ ہے کہ آپ کے مریدوں اور عقیدت مندوں میں اگر ایک طرف سلطان تیمور وسلطان ہوشینگخاں غوری اور سلطان ابراہیم شرقی جیسے سلاطین زمانہ شامل تھے، اور آپ کے مرید تھے تو دوسری طرف سيف خاں ابن نوا، جمشیدبیگ ازبک و امیر علی بیگ اور ملک الامراء محمود جیسے امراء اور جاگیرداربھی آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔
For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972